میتھیو 20:1-16 پر کیتھرینا ڈانگ کا جرمن زبان میں خطبہ:
“جنت کی بادشاہت انگور کے باغ کے مالک کی ما نند ہے۔ ایک دن صبح باغ کا مالک اپنے باغ میں کام پر لگا نے کے لئے مزدوروں کی تلا ش میں نکلا۔
ہر مزدور کو ایک دن میں ایک چاندی کا سکہ بطور مزدوری طے کر کے ان کو اپنے باغ میں کام کر نے کے لئے بھیج دیا۔
تقریباً نو بجے باغ کا ما لک ایک با ر پھر با زار گیا۔اس نے چند لوگوں کو وہا ں بیکار کھڑے ہو ئے دیکھا۔وہ ان سے کہنے لگا کہ اگر تم بھی میرے باغ میں کام کر نا چا ہو تو میں تمہیں تمہا رے کام کی منا سب مزدوری دوں گا۔
وہ مزدور کام کر نے کے لئے اس کے باغ میں چلے گئے۔”
باغ کا مالک ایک مرتبہ پھر اسی طرح بارہ بجے اور تین بجے بازار کو گیا اور دونوں مرتبہ اس نے اپنے باغ میں کام کر نے کے لئے کچھ اور بھی مزدوروں کا انتظام کر لیا۔
تقریباً پانچ بجے وہ مالک ایک بار پھر بازار کی طرف گیا۔ اس نے وہاں چند لوگوں کو کھڑے ہوئے دیکھ کر کہا کہ تم لوگ یونہی پورا دن کیوں بیکا ر کھڑے ہو ؟۔
“انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں کسی نے کام نہیں دیا۔تب اس مالک نے کہا، “اگر ایسی ہی بات ہے تو تم جاؤ اور میرے باغ میں کام کرو۔
“دن کے آخر میں باغ کے مالک نے تمام مزدوروں کے نگراں کار سے کہا۔مزدوروں کو بلا ؤ اور ان تمام کو مزدوری دیدو۔آخر میں آنے والے لوگوں کو پہلے مزدوری اور پہلے آنے والے مزدوروں کو آخر میں مزدوری دو۔
“پانچ بجے کے وقت میں جن مزدوروں کو کام پر لیا گیا تھا۔اپنی مزدوری حا صل کر نے کے لئے آگئے۔ اور ہر مزدور کو ایک ایک چاندی کا سکہ دیا گیا۔پھر وہ مزدور جو پہلے کرا ئے پر لئے گئے تھے اپنی مزدوری لینے کے لئے آئے۔ اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ دوسرے مزدوروں سے انہیں زیادہ ہی ملے گا۔ لیکن ان کو بھی مزدوری میں صرف ایک چاندی کا سکہ ہی ملا۔جب انہوں نے اپنا چاندی کا سکہ لے لیا تو یہ مزدور باغ کے ما لک کے بارے میں شکایت کرنے لگے۔
انہوں نے کہا کہ تا خیر سے کام پر آئے ہو ئے مزدوروں نے صرف ایک گھنٹہ کام کیا ہے۔ لیکن اس نے ان کو بھی ہما رے برا بر ہی مزدوری دی ہے۔ جبکہ ہم نے تو دن بھر دھوپ میں مشقت کے ساتھ کام کیا ہے۔
“باغ کے ما لک نے ان مزدوروں میں ایک سے کہا کہ اے دوست میں تیرے حق میں نا انصافی نہیں کیا ہو ں۔(لیکن ) تو نے تو صرف ایک چاندی کے سکہ کی خا طر سے کام کی ذمہ داری کو قبول کیا۔اس وجہ سے تو اپنی مزدوری لے اور چلتا بن۔ اور میں تجھے جتنی مزدوری دیا ہوں اتنی ہی مزدوری بعد میں آنے وا لے کو بھی دینا چاہتا ہوں۔
میری ذاتی رقم کو میں اپنی مرضی کے مطا بق دے سکتا ہو ں اور کہا، “میں نے جو کچھ اچھا ئی کی ہے کیا تو اس کے بارے میں حسد کر تا ہے۔
“ٹھیک اسی طرح آخرین،اولین، بنیں گے اور اولین آخریں بنیں گے۔”
*********
مارکس 12:38-44 پر ایوا ٹوجنر گوٹکے کا جرمن زبان میں خطبہ:
یسوع نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور کہا معلّمین شریعت کے بارے میں چوکنّا رہو وہ چوغہ پہن کر گھومنا پسند کرتا ہے۔ اور بازاروں میں لوگوں سے عزت حاصل کر نا چاہتے ہیں۔یہودی عبادت گاہوں میں اور دعوتوں میں وہ اعلیٰ نششتوں کی تمنّا کرتے ہیں۔
اور کہا کہ بیواؤں کی جائیدادوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں انکی طویل دعاؤں سے لوگوں میں اپنے آپ کو وہ شرفاء بتا نے کی کوشش کرتے ہیں خدا ان لوگوں کو سخت سزائیں دیگا۔”
یسوع ہیکل میں جب ندرانہ کے صندوق کے پاس بیٹھا تھا تودیکھا کہ لوگ نذرانے کی ر قم صندوق میں ڈال رہے ہیں کئی دولت مندوں نے کثیر رقم دی۔
پھر ایک غریب بیوہ آئی اور ایک تانبے کا سکّہ ڈالی۔
یسوع نے اپنے شاگر دوں کو بلا کر کہا ، “میں تم سے سچ کہتا ہوں جن لوگوں نے نذرانے ڈالے ہیں ان سب میں اس بیوہ عورت نے سب سے زیادہ ڈالا ہے۔دوسرے لوگوں نے اپنی ضروریات میں سے جو بچ رہا ہو اس میں سے تھوڑا سا ڈالا۔اور اس عورت نے اپنی غربت کے باوجود جو کچھ اس کے پاس تھا اس میں ڈال دیا جبکہ وہی اسکی زندگی کا اثاثہ تھا۔”
*********
لیوک 16:19-31 پر یورگن کیزر کا جرمن زبان میں خطبہ:
یسوع نے کہا ، “ایک مالدار آدمی تھا۔ وہ بہترین لباس زیب تن کیا کرتا تھا۔ چونکہ وہ بہت مالدار تھا اس وجہ سے وہ ہر روز شان و شوکت کے ساتھ دعوتیں کرتا۔وہاں پر لعزر نام کا ایک غریب آدمی بھی رہتا تھا۔ اس کے تمام بدن پر پھوڑے پھنسیاں تھے اور وہ ہمیشہ اس مالدار آدمی کے گھر کے صدر دروازہ کے باہر پڑا رہتا تھا۔
مالدار آدمی جب کھا نے سے فارغ ہو تا تو اسی کے بچے ہو ئے ٹکڑے جو پھینک دیتا تو اس سے لعزر اپنی بھو ک مٹا تا تھا۔ تب ایسا ہوا کہ کتے آتے اور اسکی پھنسیوں کو چاٹ جا تے تھے۔
کچھ عرصہ بعد لعزر مر گیا۔ فرشتہ لعزر کو اٹھا کر ابرا ہیم کی گود میں ڈال دیا ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ مالدار بھی مر گیا اور اس کو قبر میں دفن کر دیا گیا۔لیکن وہ عالم ارواح میں تکالیف اٹھا تے ہو ئے بہت دور پر لعزر کو ابراہیم کی گود میں پڑا دیکھا۔
وہ پکارا اے میرے باپ ابرا ہیم مجھ پر رحم فرما اور لعزر کو میرے پاس بھیج دے اور گزارش کی کہ وہ اپنی انگلی پانی میں بھگوکر میری زبان کو تر کر دے کیوں کہ میں آگ میں تکلیف اٹھا رہا ہوں!
“تب ابراہیم نے جواب دیا کہ بیٹے یاد کر تو جب زندہ تھا وہاں پر تجھے ہر قسم کا آرام تھا۔ لیکن لعزر تو بیچارہ مصائب کی زندگی میں تھا۔ اب تو وہ سکھ اور چین سے ہے اور جب کہ تو تکالیف میں گھِرا ہے۔
اس کے علا وہ تیرے اور ہمارے درمیان بڑا گہرا تعلق ہے وہاں پر پہنچ کر تیری مدد کر نا کسی سے بھی ممکن نہیں ہے کسی سے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہاں سے آئے۔
مالدار نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو مہربانی کر کے لعزر کو دنیا میں واقع میرے باپ کے گھر بھیج دے۔
کیونکہ میرے پانچ بھا ئی ہیں۔ لعزر انہیں آگاہ کریگا کہ وہ اس ایذا رسائی اور عذاب کی جگہ پر نہ آئیں۔
ابراہیم نے کہا کہ موسٰی کی شریعت اور نبیوں کے صحیفے انکے پاس ہیں انکو پڑھکر انہیں سمجھنے دو۔
تب مالدار نے کہا اے میرے باپ ابراہیم تو اس طرح نہ کہہ اگر کو ئی مرے ہوئے آدمیوں میں سے دو بارہ جی اٹھے تو وہ اپنی زندگیوں میں اپنے دلوں میں ایک تبدیلی لا ئیں گے۔
پھر ابرا ہیم نے اس سے دو بارہ کہا “نہیں! تمہارے بھا ئی نےموسٰی کی اور نبیوں کی نہیں سنی۔ تو وہ مر دوں میں دو بارہ جی اٹھنے والے کی بات پر کبھی بھی تو بہ نہ کریں گے۔”
*********
جلد ہی یہاں مزید آ رہے ہیں