میتھیو 12.38-42 پر جرمن زبان میں وولف گینگ ووگیل کا خطبہ:

“اگر تمہیں عمدہ میوہ چاہئے تو اچھے قسم کا درخت لگا نا ہو گا۔ اگر اچھے قسم کا درخت نہ ہو تو وہ نا کا رہ اور خراب پھل ہی دیگا اور اس میں آنے والے پھل ہی سے اسکو پہچا نا جا سکتا ہے۔تم سب سانپ ہو! اور تم سب ظالم ہو تو ایسے میں تم کیوں کر اچھی بات کہہ سکو گے ؟ تمہارا دل جن باتوں سے بھرا ہوا ہے تمہاری زبان وہی بات کریگی۔ایک شریف النفس آدمی اپنے دل میں نیک اور اچھی باتوں ہی کو جگہ دیتا ہے۔ اس وجہ سے وہ اپنے دل سے نکلنے والی اچھی باتوں کو ہی بولتا ہے۔ لیکن ایک وہ شخص جو برا اور ظالم ہو تو وہ اپنے دل میں صرف برائیوں ہی کا ذخیرہ کر تا ہے۔ اس وجہ سے وہ وہی بری باتیں زبان سے نکا لے گا جو اسکے دل سے نکلتی ہیں۔اور میں تم سے کہتا ہوں کہ لوگ غفلت اور لا پر واہی سے جو باتیں کر تے ہیں انکو انصاف اور فیصلہ کے دن ہر بات کی جواب دہی ہو گی۔تمہارے ہی الفاظ تمہیں راستباز ثابت کر نے کے لئے استعمال ہونگے۔ تمہاری باتوں ہی سے تمہارا نیک اور راست باز اور گنہگار قصور وار ہو نے کا فیصلہ کیا جائیگا-”

 

***********

مرقس 15:20-27 پر کارنیلیا ٹرک کے ذریعے جرمن میں خطبہ:

تب کرینی شہر کا ایک آدمی جس کا نام شمعون تھا وہ کھیت سے آرہا تھا۔ وہ سکندر اور روفی کا باپ تھا۔ سپا ہی یسوع کی صلیب اٹھا ئے لے جا نے کے لئے شمعون سے زبر دستی کر نے لگے۔اور وہ یسوع کو گلگتّا نام کی جگہ پر لائے۔گلگتّا کی معنی “کھوپڑی کی جگہ”گلگتا میں سپاہیوں نے یسوع کو پینے کے لئے پیالہ دیا یہ مرُ ملی ہوئی مئے تھی۔لیکن یسوع نے اس کو نہ پیا۔

سپا ہیوں نے یسوع کو صلیب پر لٹکا دیا اور میخیں ٹھونک دیں۔پھر یہودیوں نے قرعہ ڈالکر یسوع کے کپڑوں کو آپس میں بانٹ لیا۔

وہ جب یسوع کو صلیب پر چڑھائے تو صبح کے نو بجے کا وقت تھا۔یسوع کے خلاف جو الزام تھا وہ یہ کہ یہودیوں کا بادشاہ یہ صحیفہ صلیب پر لکھوائی گئی تھی۔اس کے علاوہ انہوں نے یسوع کے ساتھ دو ڈاکوؤں کو بھی صلیب پر لٹکا دیا تھا۔ انہوں نے ایک ڈاکو کو یسوع کی داہنی جانب اور دوسرے کو بائیں جانب لٹکا دیاتھا۔

***********

جان 11:46-52 پر کونراڈ رائزر کا جرمن زبان میں خطبہ:

وہاں کئی یہودی تھے جو مریم سے ملنے آئے تھے۔ جنہوں نے یسوع کا کارنامہ دیکھا تو ایمان لا ئے۔ان میں سے چند یہودی فریسیوں کے پاس گئے اور جو کچھ دیکھا وہ سب کہا۔تب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے صدر عدالت کے لوگوں کو جمع کرکے کہا، “ہمیں کیا کرنا ہوگا یہ آدمی تو کئی معجزے دکھا رہا ہے۔

اگر ہم خاموش رہیں اور اسے اسی طرح کرنے دیں گے تو سب لوگ جو اس پر ایمان لائیں گے پھر روم کے لوگ آکر ہماری قوم اور ہیکل کو تباہ کردینگے۔”

ان میں سے کائفا نامی شخص نے جو اس سال اعلیٰ کاہن تھا کہا ، “تم لوگ کچھ نہیں جانتے۔

بہتر ہے کہ تم میں سے ایک آدمی قوم کے واسطے مر جائے نہ کہ ساری قوم ہلاک ہو لیکن تم لوگ یہ نہیں سمجھتے۔”

کائفا نے خود نہیں سوچا۔ وہ اس سال اعلیٰ کاہن تھا اور اسی لئے وہ پیشین گوئی کر رہا تھا کہ یسوع یہودی قوم کے لئے مریں گے۔

 

***********

جان 18:1-19.42 پر فرانسسک CATARINEU i Vilageliu کا جرمن زبان میں خطبہ:

 

یسوع دعا ختم کر کے اپنے شاگردں کے ساتھ وادی قدرون کے پار گئے جہا ں زیتون کا ایک باغ تھا۔ وہ اور اس کے شاگرد اس میں گئے۔

یہوداہ اس جگہ کو جانتا تھا کیوں کہ یسوع اکثر اپنے شا گردوں کے ساتھ یہیں ملا کر تا تھا۔ یہ وہ یہو داہ تھا جو یسوع کا مخا لف تھا۔

اور یہوداہ سپا ہیو ں کے دستہ کے ساتھ وہاں آیا یہوداہ اپنے ساتھ چند سردار کا ہنوں اور فریسیوں کے حفا ظتی دستوں کو لے آیا تھا جنکے پاس مشعل ،لا لٹین اور ہتھیار تھے۔

یسوع ان سب باتوں کو جو اس کے ساتھ ہو نے وا لی تھیں جانتے تھے۔ یسوع باہر آئے اور پو چھے کسے دیکھنے کے لئے تم آئے ہو ؟

ان آدمیوں نے جواب دیا ، “یسوع نا صری” یسوع نے کہا ، “میں یسوع ہوں” ( یہوداہ جو یسوع کا دشمن تھا ان کے ساتھ کھڑا تھا )

جب یسوع نے کہا ، “میں یسوع ہوں” تب وہ آدمی پیچھے ہٹے اور زمین پر گر گئے۔

پھر یسوع نے کہا تم کس کو ڈھونڈ رہے ہو۔ لو گوں نے کہا ، “یسوع ناصری کو۔”

یسوع نے کہا، “میں تم سے سچ کہہ چکا ہوں کہ میں یسوع ہوں اگر تم مجھے ڈھونڈ رہے ہو تو ان دوسروں کو جانے دو۔”

یہ اس نے اس لئے کہا کہ جو قول تو نے دیا وہ پورا ہو۔ جن آدمیوں کو تو نے مجھے دیا: “میں نے کسی کو بھی نہ کھویا۔”

شمعون پطرس کے پا س تلوار تھی اس نے نکا ل کر اعلیٰ کا ہن کے خادم پر وار کر کے اس کا داہنا کان اڑا دیا ( اس خا دم کا نام ملخس تھا )۔

یسوع نے پطرس سے کہا ، “تلوار کو نیام میں رکھ لے میں اس پیا لہ کو جو باپ نے دیا ہے کیوں نہ قبول کروں۔”

تب سپا ہیوں اور ان کے افسروں اور یہودیوں نے یسوع کو پکڑا اور باندھ دیا۔اور اسے حناّ کے پاس لا ئے۔ حناّ در اصل کائفا کا خسر تھا۔ کا ئفا ہی اس سال اعلیٰ کا ہن تھا۔

کا ئفا ہی وہ شخص تھا جس نے یہو دیوں سے کہا تھا سارے آدمیوں کے لئے ایک آدمی کا مر نا بہتر ہے۔

شمعون پطرس اور یسوع کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد یسوع کے ساتھ گئے۔یہ شاگرد اعلیٰ کا ہن سے واقف تھا اسلئے وہ یسوع کے ساتھ اعلیٰ کا ہن کے مکان کے آنگن میں گئے۔لیکن پطرس دروازہ کے با ہر ہی رہا۔ وہ شاگرد جو اعلیٰ کا ہن کو جانتا تھا واپس آیا اور اس لڑ کی سے بات کی جو دربان تھی اور وہ پطرس کو اندر لائی۔

دروازہ پر کھڑی لڑکی نے پطرس سے کہا کیا تم بھی اسکے شاگردوں میں سے ایک ہو؟” پطرس نے کہا، “نہیں میں نہیں ہوں۔”

سردی کی وجہ سے خادم اور پیا دے آگ دہکا رہے تھے اور اسکے ارد گرد کھڑے لوگ آگ تاپ رہے تھے اور پطرس بھی انہی کے ساتھ کھڑا ہو کر آگ تاپ رہا تھا

علیٰ کاہن نے یسوع سے اس کے شاگردوں کی اور تعلیم کی بابت پوچھا۔یسوع نے جواب دیا ، “میں نے ہمیشہ علانیہ طور پر لوگوں سے کہا اور میں نے ہیکل میں اور یہودی عبادت گاہ کے اندر بھی کہا۔جہاں تمام یہودی جمع تھے۔ میں نے کبھی کوئی بات خفیہ نہیں کی۔

پھر تم مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ “ان سے پو چھو جنہوں نے میری تعلیمات کو سنا جو کچھ میں نے کہا وہ جانتے ہیں؟”

جب یسوع نے ایسا کہا تو پیادوں میں ایک جو وہاں کھڑا تھا یسوع کے چہرے پر مارا اور کہا، “ تو اعلٰی کا ہن کو اسطرح جواب دیتا ہے ؟”

یسوع نے کہا ، “اگر میں نے غلط کہا تو جو کو ئی یہاں ہے وہ کہے کہ کیا غلط ہے اگر میں نے سچ کہا ہے تو پھر مجھے مارتے کیوں ہو۔”

پھر حنّا نے یسوع کو کائفا اعلیٰ کاہن کے پاس بھیج دیا یسوع اس وقت بندھے ہوئے تھے۔

شمعون پطرس آ گ کے قریب کھڑا آ گ تاپ رہا تھا دوسرے آدمی نے پطرس سے کہا ، “کیا تم اس آدمی کے شاگردوں میں سے ایک ہو؟” لیکن پطرس نے کہا ، “نہیں میں نہیں ہوں۔”

اعلیٰ کاہن کے خادموں میں سے ایک نے جو اسکا رشتہ دار تھا جس کا کا ن پطرس نے کا ٹا تھا کہا ، “کیا میں نے تجھے اس کے ساتھ باغ میں نہیں دیکھا تھا۔”

لیکن پطرس نے دوبارہ کہا ، “نہیں میں اسکے ساتھ نہیں تھا۔” اور اسی وقت مرغ نے بانگ دی۔

اس کے بعد یہودیوں یسوع کو کائفا کے مکان سے رومی گورنر کے محل کو لے گئے یہ صبح کا وقت تھا۔ یہودی گور نر کے محل کے اندر نہیں گئے وہ اپنے آپ کو نا پاک نہ کر نا چاہتے تھے۔ کیوں کہ وہ فسح کا کھا نا کھانا چاہتے تھے۔

تب پیلا طس نے باہر آکر ان سے کہا ، “تم لوگ اس آدمی کے بارے میں کیا کہتے ہو، اس نے کیا برائی کی ہے ؟”

یہودیوں نے جواب دیا ، “یہ بڑا خراب آدمی ہے اسلئے ہم اسے تمہارے پاس لا ئے ہیں۔”

پیلاطس نے یہودیوں سے کہا ، “تم اسے لے جاؤ اور اپنی شریعت کے مطا بق اسکا فیصلہ کرو ؟”یہودیوں نے جواب دیا ، “لیکن تمہارا قانون ہمیں کسی کو مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔”

یہ اس لئے ہوا تا کہ یسوع کی بات پو ری ہو جو اس نے موت کے متعلق کہی تھی۔

پیلاطس واپس گور نر کے محل میں گیا اور یسوع کو بلا کر پو چھا ، “کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟”

یسوع نے کہا، “کیا یہ سوال تمہارا ہے؟ یا پھر دوسروں نے میرے بارے میں تجھ سے کہا؟”

پیلاطس نے کہا ، “میں یہودی نہیں ہوں! یہ تو تمہارے لوگ اور ان کے سردار کا ہن تھے جنہوں نے تمہیں میرے پاس لے آیا۔ تم نے کیا برائی کی ہے ؟”

یسوع نے کہا ، “میری بادشاہت اس دنیا کی نہیں اگر میری بادشاہت اس دنیا کی ہو تی تب میر ے خادم یہودیوں کے خلاف لڑے ہو تے تا کہ مجھے یہودیوں کے حوالے نہیں کیا جاتا۔ لیکن میری بادشاہت کسی اور جگہ کی ہے۔”

پیلاطس نے کہا، “تو پھر تم بادشاہ ہو!” یسوع نے کہا، “تمہارا خود کا کہنا ہے کہ میں بادشاہ ہوں یہ سچ ہے میں اسی لئے پیدا ہوا تھا اور اسی لئے دنیا میں آیا تاکہ سچائی کی گواہی دوں اور ہر وہ شخص جو سچ سے تعلق رکھتا ہے وہ میری آواز سنے۔”

پیلاطس نے کہا، “سچائی کیا ہے؟”اور اتنا کہہ کر وہ باہر یہودیوں کے پاس دوبارہ گیا اور ان سے کہا ، “میں اس کا کچھ جرم نہیں پا تا ہوں۔

مگر تمہارے رواج کے مطا بق فسح پر میں ایک قیدی کو رہا کرتا ہوں کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے لئے اس یہودیوں کے بادشاہ کو چھو ڑ دوں؟”

یہودی چّلا اٹھے اور کہا ، “نہیں! اس کو نہیں برّبا کو چھو ڑ دو” ( برّبا ایک ڈاکو تھا- )

تب پیلاطس نے حکم دیا کہ یسوع کو لے جاکر کوڑے لگا ئے جا ئیں۔سپاہیوں نے کانٹوں کا تاج بنایا اور اسکے سر پر پہنایا اور اس کو ارغوانی رنگ کے کپڑے پہنا ئے۔

اور اسکے قریب یکے بعد دیگر آکر اسکے چہرے پر طمانچے مارتے ہوئے کہتے “اے یہودیوں کے بادشاہ! آداب۔”

پیلاطس دوبارہ باہر آکر یہودیوں سے کہا، “دیکھو میں یسوع کو تمہارے پاس باہر لا رہا ہوں میں تمہیں بتا نا چاہتا ہوں کہ میں نے ایسی کو ئی چیز نہیں پائی جسکی بناء پر اسے مجرم قرار دوں۔”

تب یسوع باہر آئے اس وقت وہ کانٹوں کا تاج پہنے ہوئے تھے اور ارغوانی لباس بدن پر تھا پیلاطس نے یہودیوں سے کہا ، “یہ رہا وہ آدمی۔”

سردار کاہن اور یہودی سپاہیوں نے یسوع کو دیکھا تو پکار اٹھے “اس کو صلیب پر چڑھا دو! صلیب پر چڑھا دو!” لیکن پیلاطس نے کہا ، “تم ہی اس کو لے جاؤ اور صلیب پر چڑھا دو کیوں کہ میں اس کا کچھ بھی جرم نہیں پا تا ہوں۔”

یہودیوں نے کہا ، “ہم اہل شریعت ہیں اور اس شریعت کے مطا بق اسکو مر نا چاہئے کیوں کہ اس نے کہا وہ خدا کا بیٹا ہے۔”

جب پیلاطس نے یہ سنا تو وہ مزید ڈر گیا اور۔پیلاطس گور نر کے محل کے اندر واپس چلا گیا اور یسوع سے پو چھا ، “تو کہاں کا ہے؟” لیکن یسوع نے کو ئی جواب نہیں دیا۔

پیلاطس نے کہا، “تم مجھ سے کچھ کہنے سے انکار کر تے ہو۔ یاد رکھو میں وہ اختیار رکھتا ہوں کہ تم کو چھوڑ دوں یا صلیب پر چڑھا کر ماردوں۔”

یسوع نے کہا، “اگر خدا تمہیں یہ اختیار نہ دیتا تب تمہارا مجھ پر کچھ اختیار نہ ہو تا جسے خدا نے تمہیں دیا ہے۔ اس لئے جس نے مجھے تیرے حوالے کیا اس کا گناہ زیادہ ہے بنسبت تیرے۔”

اسکے بعد پیلاطس نے کوشش کی کہ اسے چھوڑ دے مگر یہودیوں نے چلا کر کہا، “جو آدمی اپنے آپکو بادشاہ کہے وہ قیصر کا مخالف ہے اگر تو اسے چھوڑے گا تو قیصر کا خیر خواہ نہیں ہے۔”

پیلاطس سے یہودیوں نے جو کہا وہ سنا اور یسوع کو باہر اس جگہ پر لے آیا اور فیصلہ کر نے کی نشست پر بیٹھا ، “اس جگہ کو سنگ چبوترہ” (عبرانی زبان میں گبّتھّا) کہتے ہیں۔یہ وقت دو پہر کا تھا تقریباً چھٹا گھنٹہ تھا فسح کی تیاری کا دن

تھا۔ پیلاطس نے یہودیوں سے کہا ، “تمہارا بادشاہ یہاں ہے۔”

یہودی چیخ رہے تھے” لے جاؤ اسے ,لے جاؤ اسے ,اور صلیب پر چڑھا دو! “پیلاطس نے یہودیوں سے پو چھا ،”تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے بادشاہ کو صلیب پر چڑھا دوں ؟” تب سردار کاہنوں نے کہا ، “ہمارا بادشاہ صرف قیصر ہے!”

اس کے بعد پیلا طس نے یسوع کو انکے حوالے کیا کہ مصلوب کیا جائے۔

سپاہی یسوع کو لے گئے۔یسوع نے خود اپنی صلیب اٹھا ئی اور اس جگہ جو“کھو پڑی کی جگہ کہلاتی تھی” گئے۔ (عبرانی زبان میں اس جگہ کو“گولگتّا” کہا جاتا ہے )

گولگتّا کے مقام پر انہوں نے یسوع کو اور اسکے ساتھ دو اور آدمیوں کو صلیب پر چڑھا دیا۔ دو آدمی یسوع کے دو طرف تھے اور یسوع ان دونوں کے درمیان میں تھے۔

پیلاطس نے ایک تختی نشان کے طور پر لکھی اور صلیب پر لگا دی جس پر لکھا تھا “یسوع ناصری یہودیوں کا بادشاہ۔”

تختی عبرانی ,لاطینی ,اور یونانی زبانوں میں لکھی ہوئی تھی۔ جس کو بہت سے یہودیوں نے پڑھا کیوں کہ یہ جگہ جہاں انہوں نے یسوع کو مصلوب کیا وہ جگہ شہر کے قریب تھی۔

سردار یہودی کاہنوں نے پیلاطس سے کہا ، “اس کو یہودیوں کا بادشاہ نہ لکھو بلکہ ایسا لکھو اس شخص نے کہا تھا کہ میں یہودیوں کا بادشاہ ہوں۔”

پیلاطس نے کہا ، “جو کچھ میں نے لکھا ہے اس کو تبدیل کر نا نہیں چاہتا۔”

جب سپاہیوں نے یسوع کو مصلوب کیا تو ان لوگوں نے انکے کپڑے لے لئے ان لوگوں نے کپڑوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہر سپا ہی نے ایک ایک حصہ لیا ان لوگوں نے انکا کر تا بھی لے لیا یہ بغیر سلا ہوا اوپر سے نیچے تک بنا ہوا تھا۔

سپاہیوں نے کہا اس کو نہ پھا ڑو بلکہ اس کے لئے قرعہ ڈالیں تا کہ معلوم ہو کہ یہ کس کے حصہ میں آیا ہے۔ یہ اس لئے ہوا تا کہ صحیفے میں جو لکھا ہوا ہے وہ پو را ہو سکے۔ جو اسطرح سے ہے:  

“انہوں نے میرے کپڑے آپس میں تقسیم کر لئے
اور میری پو شاک کے لئے قرعہ ڈالا ۔”  

چنانچہ سپاہیوں نے یہی کیا۔

یسوع کی ماں صلیب کے پاس کھڑی تھی اور اسکی ماں کی بہن کلوپاس کی بیوی مریم اور مریم مگدلینی کے ساتھ کھڑی تھی۔یسوع نے اپنی ماں اور شاگرد جس کو وہ عزیز رکھتے تھے دیکھے اور اپنی ماں سے کہا، “اے عورت تیرا بیٹا یہاں ہے ”اور یسوع نے شاگرد سے کہا،

“یہاں تمہاری ماں ہے۔”اسکے بعد سے شاگرد نے یسوع کی ماں کو اپنے ہی گھر میں رہنے دیا۔م

اس کے بعد یسوع نے جا ن لیا کہ سب کچھ ہو چکا اور صحیفہ کا لکھا ہوا پو را ہوا تو اس نے کہا، “میں پیا سا ہوں۔” وہا ں پر سر کہ سے بھرا ایک مر تبان تھا چنانچہ سپا ہیوں نے اسپنج کو سرکہ میں بھگو کر اسے زوفے کی شا خ پر رکھ کر اس کو دیا۔ یسوع نے اسے منھ سے لگا یا۔

جب سر کہ یسوع نے پیا تو کہا ، “سب کچھ تمام ہوا ۔”اور گردن ایک طرف جھکا دی اور اپنی جان دیدی۔

یہ دن تیا ری کا دن تھا۔ اور دوسرے دن خاص سبت کا دن تھا یہودی نہیں چا ہتے تھے کہ سبت کے دن اس کا جسم صلیب پر ہی رہے اس لئے انہوں نے پیلا طس سے کہا کہ اس کی ٹانگیں توڑ دی جا ئیں اورلاشیں اتا ری جا ئیں۔چنانچہ سپا ہیوں نے آ کر پہلا آدمی جو مصلوب ہوا تھا اس کی ٹانگیں توڑ دیں اور دوسرے آدمی کی بھی ٹانگیں توڑ دیں جو یسوع کے ساتھ تھا۔

لیکن جب سپا ہی نے یسوع کے قریب آکر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو انہوں نے اس کی ٹانگیں نہیں تو ڑی۔

لیکن ایک سپا ہی نے اپنے بھا لے سے اس کے بازو کو چھید ڈالا اور اس سے ایک دم خون اور پانی نکلا۔جس نے یہ دیکھا اس نے گواہی دی اور وہ گواہی سچی ہے وہ سچ کہتا ہے تا کہ تم بھی ا یمان لاؤ۔یہ تمام واقعات صحیفے کے پورے ہونے کے لئے ہوئے “اس کی کوئی ہڈی نہ تو ڑی جا ئے گی۔”لیکن ایک دوسرے صحیفے کے مطا بق لوگ “اس کو دیکھیں گے جس نے بر چھی ما را۔”

ان واقعات کے بعد ایک شخص یوسف نامی جو آرمینہ کا رہنے والا تھا اور یسوع کا شاگرد تھا پیلا طس سے یسوع کی لاش لے جا نے کی اجازت چا ہی۔یوسف یسوع کا خفیہ شا گرد تھا۔ کیوں کہ وہ یہودیوں سے ڈرتا تھا پیلا طس نے اجا زت دے دی۔ تب یوسف آکر یسو ع کی لاش لے گیا۔

نیکو دیمس بھی آیا۔ نیکو دیمس وہ شخص تھا جو یسوع سے ملنے رات کو آیا تھا نیکو دیمس تقریباً ایک سو پا ؤنڈ مصا لحے لے آیا جو مرّ اور عود سے ملے ہو ئے تھے۔ان دونوں نے یسوع کی لا ش کو لے لیا اور لاش کو سوتی کپڑے میں خوشبو کے ساتھ کفنایا جیسا کہ یہودیوں کے یہاں دفن کا طریقہ ہے۔جس جگہ یسوع کو صلیب ہر چڑھایا گیا وہا ں ایک باغ تھا اس باغ میں ایک نئی قبر تھی جس میں اب تک کسی کو نہیں دفن کیا گیاتھا۔ان آدمیوں نے یسوع کو اس قبر میں رکھا کیوں کہ وہ قریب تھی اور یہودیوں نے اپنے سبت کے دن کی تیاری شروع کر دی۔

 

 

***********

 

جلد ہی یہاں مزید آ رہے ہیں